
سوانح حیات صوفی با صفا محمد مظھر جان جانان غفاری خلیلی نقشبندی رح
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کی رہنمائی کے لیے ہر دور میں کاملین کو لوگوں کے درمیان بھیجا ہے، جو حضور اکرم خاتم الانبیاء علیہ الصلوات والسلام کے نائب ہیں، ان اولیاء کاملین کا تعلق سلاسلِ طریقت سے ہوتا جن کا تعلق بالواسطہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے، خواہ وہ نقشبندی سلسلہ ہو قادری ہو چشتی یا پھر سہروردی ہو سب کا مقصد و محور پاک پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذات تک رسائی ہے
انہیں اولیاء میں ایک نام قطب عالم غوث الزماں قیوم دوراں خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ محمد عبدالغفار المعروف حضور پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے جو عارف باللّٰہ ولی کامل عالمِ باعمل وارثِ انبیاء تھے، آپ نے اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسکے حبیب علیہ الصلوات والسلام کی اطاعت میں بصر فرمائی، جن کا فیضان ایک صدی گذر جانے کے بعد بھی پوری دنیا میں قائم دائم ہے.
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے وارثِ مسند قدوت الاولیاء رئیس العلماء قطب الارشاد حضرت خواجہ محمد خلیل الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ تھے جنہوں نے اپنے والد گرامی اور مرشد کامل کے مشن کو زندہ و جاوید رکھا.
حضرت خواجہ محمد خلیل الرحمٰن کو اپنے والد و مرشد کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ایک صاحبزادہ عطا کیا جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت مرزا مظھر جان جاناں قدس سرہ العزيز کے نام پر “محمد مظھر جان جاناں” اپنے دادا جان حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے رکھا
حضرت خواجہ محمد مظھر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے دادا جان غوث الزماں حضرت پیر مٹھا سائیں اور اپنے والد گرامی حضرت خواجہ محمد خلیل الرحمٰن رحمہم اللہ سے حاصل کی
آپ ابھی دس سال کے تھے تو حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوگیا جس کے بعد آپ کو مزید حصول علم دین کے لیے استاد العلماء علامہ حافظ احمد بروہی غفاری کے پاس پڑھایا گیا.
حضرت جانان سائيں مادر زاد (ماں کے پیٹ سے) ولی تھے آپ کے بچپن ہی سے کئی کرامات کا نزول ہوتا رہتا تھا. جب آپ نے علمِ دین سے فراغت حاصل کی تو آپ کے والد و مرشد حضرت خواجہ محمد خلیل الرحمٰن نے آپ کو اسباقِ معرفت اور راہ سلوک کے بقایہ مقامات اور منزلات سے آراستہ فرمایہ اور خلافت و جانشین مقرر فرمایا
آپ ابھی جوان ہی تھے کہ حضرت خواجہ محمد خلیل الرحمٰن کا وصال پرملال ہوگیا جس کے بعد دربار شریف اور جماعت کی ساری ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر آگئی
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دربار شریف کے تعمیراتی کام اور جماعت کو منظم اور مضبوط کرنے میں دن رات صرف کر دیے، آپ مستجاب الدعوات تھے جو کوئی بھی بارگاہ میں حاجت لے کر آیا کرتا تھا آپ دعا فرماتے تھے حاجت مند کی مراد پوری ہوجاتی تھی
آپ رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت قلندر لعل شھباز سیدنا عثمان مروندی رحمۃ اللہ علیہ سے بے حد محبت و عقیدت تھی آپ اکثر سیہون شریف تشریف لے جایا کرتے اور ساری ساری رات حضرت قلندر بادشاہ کی مزار مبارک پر مراقبہ فرمایا کرتے تھے، آپ کی انہیں خصلتوں اور بیشمار علامات کی وجہ سے جید علماء اور اولیاء نے آپ کو “مرد قلندر” کہہ کر پکارا.. کیوں کہ اولیاء کو اولیاء ہی پہچانا کرتے ہیں.
آپ رحمۃ اللہ علیہ 13 رمضان المبارک 1420ھہ بمطابق 22 ڈسمبر 1999ع بروز بدھ کو وصال فرما گئے
انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے دادا حضور پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دربار عالیہ رحمتپور شریف میں دفنایا گیا
حضرت جان جانان سائيں رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اللہ پاک نے ایک ہی صاحبزادہ عطا فرمایا جن کا نام اپنے جد اعلیٰ حضرت پیر مٹھا سائیں کے نام پر رکھا گیا، انہوں نے آپ کے نماز جنازہ پڑھائی اور مسندِ مرشد کے اعلیٰ طریقے کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں آج بھی لوگ آپ کو “حضرت پیر مٹھا ثانی” کے نام سے پکارتے اور یاد کرتے ہیں
حصولِ برکت کے لیے حضرتِ صاحب عرس حضرت سائیں محمد مظھر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کرامت درج کی جاتی ہے:
ایک فقیر کا بیان ہے کہ میں رات کو سہون شریف میں مقیم تھا کہ اچانک نور ہی نور ظاہر ہوا، وہاں دیکھا کہ ایک حسین و جمیل نوری شخص روضہ مبارک کے باہر کھڑا ہوا ہے تھوڑی دیر بعد ایک شخص آتا ہے جسکو غور سے دیکھا تو وہ حضرت سائیں جان جاناں تھے. وہ نوری شخص حضرت سائیں جان جاناں کو روضہ مبارک کے اندر لے جاتا ہے کافی وقت بعد دونوں باہر آتے ہیں آپ دونوں کے ساتھ ایک مجذوب فقیر (جوکہ دن کو روضہ شریف کے باہر بیٹھا کرتا ہے) وہ بھی موجود تھا، حضرت سائیں جان جاناں کو رخصت کرکے وہ نوری شخص واپس روضے میں جاتا ہے اور مجذوب شخس دروازہ بند کر لیتا ہے
دوسرے دن میں انتہائی ادب و احترام سے دل میں آرزو لیکر اس مجذوب شخص کے پاس رات والا ماجرا پوچھنے گیا، میرے اسرار پر انہوں نے بتایا کہ وہ شخص واقعی میں حضرت خواجہ محمد مظھر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ تھے اور جو نورانی شخص ان کے ساتھ تھے وہ اور کوئی نہیں قلندر بادشاہ حضرت سیدنا عثمان مروندی رحمۃ اللہ علیہ تھے.. یہ بات سن کر فقیر کہتا ہے مجھے وجد طاری ہوگیا اور ایمان تازہ ہوگیا.
خلفائے جانانيه: مولانا محمد امین الدین، مولوی عبدالوہاب، قاری محمد ابراہیم، اللہ بخش بیخرچ، ڈاکٹر شجاع احمد عباسی، مولوی غلام محمد بھٹو اور حافظ عبدالعزیز غفاری
اللہ تعالیٰ کی سائيں پر کروڑوں رحمتیں ہوں اور ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش و مغفرت ہو آمین
Comments are closed.